daleelein

 اسلامی تعلیمات میں "کافر" کی اصطلاح ان لوگوں کے لئے استعمال ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، اس کے رسولوں کی رسالت، اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ قرآن اور احادیث میں کفر کی مختلف قسمیں اور کافروں کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔ یہاں ان کی تفصیل پیش کی جاتی ہے:

قرآن کی روشنی میں کافر کون ہیں؟

  1. شرک کرنے والے:
    وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرتے ہیں۔ قرآن میں فرمایا گیا ہے:

    "اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ"
    (بے شک اللہ اس بات کو نہیں بخشتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے اور اس کے سوا جو کچھ ہے جس کے لئے چاہے بخش دیتا ہے)
    (سورہ النساء 4:48)

  2. رسولوں کی رسالت کا انکار کرنے والے:
    وہ لوگ جو رسولوں کی رسالت اور نبوت کو نہیں مانتے۔ قرآن میں کئی مقامات پر ان کا ذکر آیا ہے:

    "وَ مَا کَفَرَ سُلَیۡمٰنُ وَ لٰکِنَّ الشَّیٰطِیۡنَ کَفَرُوۡا یُعَلِّمُوۡنَ النَّاسَ السِّحۡرَ"
    (اور سلیمان نے کفر نہیں کیا، لیکن شیطانوں نے کفر کیا، وہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے)
    (سورہ البقرہ 2:102)

  3. آخرت کا انکار کرنے والے:
    وہ لوگ جو آخرت کے وجود اور روزِ قیامت کا انکار کرتے ہیں۔ قرآن کہتا ہے:

    "وَ قَالُوۡۤا اَئِذَا کُنَّا تُرٰبًا وَّ اٰبَآؤُنَآ ؕ اَئِنَّا لَمُخۡرَجُوۡنَ"
    (اور وہ کہتے ہیں: کیا جب ہم مٹی ہو جائیں گے اور ہمارے باپ دادا بھی؟ کیا ہم ضرور نکالے جائیں گے؟)
    (سورہ النمل 27:67)

  4. اللہ کی آیات کو جھٹلانے والے:
    جو لوگ اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں:

    "وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ؕ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ"
    (اور جن لوگوں نے کفر کیا اور ہماری آیات کو جھٹلایا وہ دوزخ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے)
    (سورہ البقرہ 2:39)

  5. منافقین:
    وہ لوگ جو بظاہر مسلمان ہوں مگر دل سے ایمان نہ لائے ہوں، قرآن میں انہیں بھی کافر کہا گیا ہے:

    "اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ فِی الدَّرۡکِ الۡاَسۡفَلِ مِنَ النَّارِ ۚ وَ لَنۡ تَجِدَ لَہُمۡ نَصِیۡرًا"
    (بے شک منافقین دوزخ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے اور تو ان کا کوئی مددگار نہ پائے گا)
    (سورہ النساء 4:145)

احادیث کی روشنی میں کافر کون ہیں؟

  1. اللہ کی ذات کا انکار کرنے والے:
    رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

    "مَنْ مَاتَ وَهُوَ يَدْعُو مِنْ دُوْنِ اللهِ نِدًّا دَخَلَ النَّارَ"
    (جو شخص اس حالت میں مرا کہ وہ اللہ کے سوا کسی اور کو پکارتا تھا، وہ جہنم میں داخل ہوگا)
    (صحیح البخاری)

  2. نبوت محمد ﷺ کا انکار کرنے والے:
    رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

    "وَالَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا يَسْمَعُ بِيْ أَحَدٌ مِنْ هٰذِهِ الْأُمَّةِ، يَهُوْدِيٌّ وَلا نَصْرَانِيٌّ، ثُمَّ يَمُوْتُ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِيْ أُرْسِلْتُ بِهِ إِلَّا كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ"
    (قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے، کوئی یہودی یا عیسائی مجھ پر ایمان لائے بغیر مرے تو وہ دوزخی ہوگا)
    (صحیح مسلم)

  3. اسلامی تعلیمات کے ساتھ مخالفت کرنے والے:
    احادیث میں یہ بھی ذکر ہے کہ وہ لوگ جو جان بوجھ کر اسلامی تعلیمات کی مخالفت کریں، وہ کافر شمار ہوں گے۔

کفر کی اقسام

  1. کفرِ انکار:
    اللہ اور اس کے رسولوں کا مکمل انکار۔

  2. کفرِ جحود:
    حق کو پہچاننے کے بعد بھی اس کا انکار کرنا۔

  3. کفرِ عناد:
    حق کے سامنے آنے کے باوجود ضد اور عناد کی وجہ سے قبول نہ کرنا۔

  4. کفرِ شک:
    اللہ یا اس کی صفات یا کسی اسلامی عقیدے میں شک کرنا۔

  5. کفرِ نفاق:
    ظاہری طور پر اسلام قبول کرنا مگر دل میں انکار رکھنا۔

خلاصہ

کافر وہ ہیں جو اللہ کی وحدانیت، رسولوں کی رسالت، اور آخرت پر ایمان نہیں رکھتے۔ قرآن اور احادیث میں کفر کی مختلف شکلیں بیان کی گئی ہیں تاکہ مسلمانوں کو ان کے اعمال کے نتائج سے آگاہ کیا جائے اور انہیں صحیح راستے پر رہنے کی ترغیب دی جائے۔ اللہ کی تعلیمات کا انکار اور اس کے رسول کی اطاعت سے انحراف کرنے والوں کو کافر کہا جاتا ہے، اور ان کی آخرت کی فکر کے لئے نصیحت کی گئی ہے۔

You said:
mujyy is ayat ka aik aik ka matlab samjhao "مَنْ مَاتَ وَهُوَ يَدْعُو مِنْ دُوْنِ اللهِ نِدًّا دَخَلَ النَّارَ"
ChatGPT said:
ChatGPT

حدیث "مَنْ مَاتَ وَهُوَ يَدْعُو مِنْ دُوْنِ اللهِ نِدًّا دَخَلَ النَّارَ" کا ایک ایک لفظ کا مطلب سمجھنے سے پہلے، یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ حدیث کیا بیان کرتی ہے اور اس کا مفہوم کیا ہے۔ یہاں اس حدیث کے ہر لفظ کی تفصیل اور تشریح کی گئی ہے:

حدیث کا متن

"مَنْ مَاتَ وَهُوَ يَدْعُو مِنْ دُوْنِ اللهِ نِدًّا دَخَلَ النَّارَ"

الفاظ کی تشریح

  1. "مَنْ"

    • مطلب: جو (whoever)
    • تفصیل: یہ لفظ کسی بھی شخص کی طرف اشارہ کرتا ہے، یعنی اس حدیث میں بیان کیا گیا حکم ہر انسان پر لاگو ہوتا ہے۔
  2. "مَاتَ"

    • مطلب: مر گیا (dies)
    • تفصیل: یہ فعل کسی شخص کے دنیا سے انتقال کر جانے کو بیان کرتا ہے۔ اس حدیث میں اس شخص کی حالت کو بیان کیا گیا ہے جو دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔
  3. "وَهُوَ"

    • مطلب: جبکہ وہ (while he)
    • تفصیل: یہ لفظ اس شخص کی موجودہ حالت کی وضاحت کرتا ہے، جو اس کی موت کے وقت ہو۔
  4. "يَدْعُو"

    • مطلب: پکارتا ہے (calls)
    • تفصیل: یہ فعل کسی کو پکارنے یا بلانے کے عمل کو بیان کرتا ہے۔ یہاں اس سے مراد کسی غیر اللہ کو عبادت یا دعا کے لئے پکارنا ہے۔
  5. "مِنْ دُوْنِ اللهِ"

    • مطلب: اللہ کے علاوہ (other than Allah)
    • تفصیل: اس سے مراد اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو پکارنا یا اس کی عبادت کرنا ہے۔ یعنی، اس شخص نے اللہ کے علاوہ کسی اور کو معبود بنا لیا ہے۔
  6. "نِدًّا"

    • مطلب: شریک یا ہمسر (partner or equal)
    • تفصیل: یہ لفظ کسی کو اللہ کا ہمسر یا شریک بنانے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یعنی، اس شخص نے اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک کر لیا ہے۔
  7. "دَخَلَ"

    • مطلب: داخل ہو گا (will enter)
    • تفصیل: یہ فعل اس شخص کے انجام کو بیان کرتا ہے کہ وہ کہاں داخل ہوگا۔
  8. "النَّارَ"

    • مطلب: جہنم (the fire)
    • تفصیل: یہ لفظ جہنم کو بیان کرتا ہے، جو آخرت میں کفار اور مشرکین کا ٹھکانہ ہے۔

حدیث کا مکمل مفہوم

اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص اس حالت میں مرے کہ وہ اللہ کے علاوہ کسی اور کو پکار رہا تھا یا اس کو اللہ کے برابر سمجھ رہا تھا، وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ یہ حدیث شرک کی سنگینی کو بیان کرتی ہے اور مسلمانوں کو اس بات کی تلقین کرتی ہے کہ وہ اپنی عبادت اور دعا صرف اللہ کے لئے مخصوص رکھیں۔

اہم نکات

  • شرک کی ممانعت: اس حدیث میں سب سے اہم پیغام شرک کی ممانعت ہے، یعنی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا یا اس کی عبادت کے لئے کسی اور کو پکارنا بالکل منع ہے۔
  • اخلاص کی تلقین: اس حدیث کے ذریعے مسلمانوں کو اخلاص اور اللہ کی وحدانیت پر ایمان رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔
  • آخرت کی فکر: یہ حدیث انسان کو اس کے انجام کی فکر دلاتی ہے کہ دنیا میں کئے گئے اعمال آخرت میں اس کے لئے کس طرح کے نتائج لائیں گے۔

خلاصہ

حدیث "مَنْ مَاتَ وَهُوَ يَدْعُو مِنْ دُوْنِ اللهِ نِدًّا دَخَلَ النَّارَ" اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرتے ہوئے یا اسے اللہ کا شریک مانتے ہوئے مر جاتا ہے، تو اس کا انجام جہنم ہے۔ یہ حدیث ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ توحید یعنی اللہ کی وحدانیت پر ایمان اور شرک سے بچنا ہر مسلمان کے لئے لازمی ہے۔


قرآنی آیات میں ذکر

  • سورہ البقرہ:

    "وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ * فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ"
    (البقرہ 2:35-36)
    (اور ہم نے کہا: اے آدم، تم اور تمہاری بیوی جنت میں رہو، اور جہاں چاہو فراخی سے کھاؤ، لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا ورنہ ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔ پھر شیطان نے ان کو وہاں سے پھسلا دیا اور ان کو اس حالت سے نکال دیا جس میں وہ تھے۔)

  • سورہ النحل:

    "إِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ"
    (النحل 16:63)
    (بے شک وہ اپنے گروہ کو بلاتا ہے کہ وہ جہنم والوں میں سے ہو جائیں۔)

  • سورہ الناس:

    "مِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ * الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ"
    (الناس 114:4-5)
    (وسوسے ڈالنے والے خناس کے شر سے، جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے۔)

شیطان کی منفی خصوصیات

  1. وسوسے ڈالنا: شیطان کا سب سے اہم کام لوگوں کے دلوں میں برے خیالات ڈالنا ہے۔
  2. گمراہی: شیطان لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ وہ اللہ کی راہ سے بھٹک جائیں۔
  3. دشمنی: شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے اور اس کی ہر کوشش انسانیت کو نقصان پہنچانا ہے۔
  4. quran

اسلام میں اللہ کے علاوہ کسی اور سے دعا یا مدد مانگنے کے متعلق بہت سی بحثیں اور آراء موجود ہیں۔ بنیادی طور پر اسلام کی تعلیمات میں ہر طرح کی عبادت، دعا، اور مدد طلب کرنا صرف اللہ کے لئے مخصوص ہے۔ یہاں قرآن اور حدیث کی روشنی میں اس موضوع پر کچھ آیات اور احادیث پیش کی گئی ہیں:

قرآن مجید کی آیات

  1. سورہ الفاتحہ (1:5):

    • آیت:
      إِيَّاكَنَعْبُدُوَإِيَّاكَنَسْتَعِينُإِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ
    • ترجمہ:
      "ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔"
    • تشریح:
      اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی توحید کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ عبادت اور مدد صرف اللہ ہی سے مانگی جائے گی۔
  2. سورہ الجن (72:18):

    • آیت:
      وَأَنَّالْمَسَاجِدَلِلَّهِفَلَاتَدْعُوامَعَاللَّهِأَحَدًاوَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا
    • ترجمہ:
      "اور یہ کہ مسجدیں اللہ ہی کے لیے ہیں، پس اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔"
    • تشریح:
      اس آیت میں اللہ کے ساتھ کسی اور کو پکارنے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔
  3. سورہ البقرہ (2:186):

    • آیت:
      وَإِذَاسَأَلَكَعِبَادِيعَنِّيفَإِنِّيقَرِيبٌۖأُجِيبُدَعْوَةَالدَّاعِإِذَادَعَانِوَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ
    • ترجمہ:
      "اور جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے پوچھیں تو (آپ کہہ دیں کہ) میں نزدیک ہی ہوں، پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔"
    • تشریح:
      اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو یقین دلاتا ہے کہ وہ قریب ہے اور دعا کرنے والوں کی دعا کو سنتا اور قبول کرتا ہے۔

احادیث

  1. صحیح البخاری:

    • حدیث:
      "إِذَاسَأَلْتَفَاسْأَلِاللَّهَ،وَإِذَااسْتَعَنْتَفَاسْتَعِنْبِاللَّهِ""إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ"
    • ترجمہ:
      "جب تم سوال کرو تو اللہ سے سوال کرو، اور جب مدد چاہو تو اللہ سے مدد چاہو۔"
    • تشریح:
      اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کو تاکید کی کہ سوال اور مدد اللہ سے ہی مانگیں۔
  2. سنن الترمذی:

    • حدیث:
      "الدُّعَاءُهُوَالْعِبَادَةُ""الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ"
    • ترجمہ:
      "دعا ہی عبادت ہے۔"
    • تشریح:
      یہ حدیث دعا کی اہمیت کو واضح کرتی ہے اور اس بات پر زور دیتی ہے کہ دعا کرنا اللہ کی عبادت کا ایک اہم حصہ ہے۔

نتیجہ

اسلام میں اللہ کے علاوہ کسی اور سے دعا یا مدد طلب کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ قرآن اور حدیث کی تعلیمات کے مطابق، دعا اور مدد کے لئے اللہ کو پکارنا ہی توحید کی اصل بنیاد ہے۔ نبی کریم ﷺ بھی اس بات پر زور دیتے ہیں کہ سوال اور مدد اللہ ہی سے طلب کی جائے۔

غلط فہمیاں

کچھ لوگ اولیاء اللہ یا نبی کریم ﷺ کی روحوں سے دعا مانگنے کی دلیل دیتے ہیں، مگر یہ عمل قرآن اور سنت کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ نبی کریم ﷺ نے خود اس بات کی تعلیم دی ہے کہ انسان کا اللہ سے براہ راست تعلق ہونا چاہئے اور ہر طرح کی عبادت اور دعا اسی کے لئے مخصوص ہونی چاہئے۔

لہٰذا، مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور اپنی حاجات اور دعاؤں کے لئے صرف اسی کو پکاریں۔

You said:
mujhy batao kiya madina main ja kar ya rasool log kehte hain ya phir nabi se dua mangte hain iska jawabv bhi do quran hadees se ke jaiz hai
ChatGPT said:
ChatGPT

مدینہ منورہ میں روضہ رسول ﷺ پر حاضر ہو کر سلام پیش کرنے کی سنت موجود ہے، لیکن اس بارے میں ایک اختلاف پایا جاتا ہے کہ کیا نبی کریم ﷺ سے براہ راست دعا یا مدد طلب کی جاسکتی ہے۔ اس مسئلے کو قرآن اور حدیث کی روشنی میں دیکھتے ہیں:

مدینہ منورہ میں سلام پیش کرنا

اسلام میں روضہ رسول ﷺ پر حاضر ہو کر سلام پیش کرنے کا حکم موجود ہے، اور یہ سنت ہے۔ اس عمل کی وضاحت کچھ یوں کی جاتی ہے:

  1. سلام کا پیش کرنا:

    • نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "مَنْصَلَّىعَلَيَّعِنْدَقَبْرِيسَمِعْتُهُ،وَمَنْصَلَّىعَلَيَّنَاءٍبَلَغَتْهُ""مَنْ صَلَّى عَلَيَّ عِنْدَ قَبْرِي سَمِعْتُهُ، وَمَنْ صَلَّى عَلَيَّ نَاءٍ بَلَغَتْهُ"
      • ترجمہ: "جو شخص میری قبر کے پاس مجھ پر درود بھیجتا ہے، میں اس کو سنتا ہوں، اور جو دور سے درود بھیجتا ہے، وہ مجھ تک پہنچایا جاتا ہے۔" (سنن ابو داؤد)
    • اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبی کریم ﷺ روضہ پر پیش کیے جانے والے سلام کو سنتے ہیں۔
  2. حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا عمل:

    • حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ جب بھی مدینہ منورہ جاتے، تو مسجد نبوی میں داخل ہوتے، اور نبی کریم ﷺ کے روضے پر جا کر یہ الفاظ کہتے: "السلامعليكيارسولالله""السلام عليك يا رسول الله"
      • ترجمہ: "اے اللہ کے رسول ﷺ آپ پر سلام ہو۔"
    • یہ روایات کتب حدیث میں موجود ہیں اور ثابت کرتی ہیں کہ صحابہ کرام روضہ رسول ﷺ پر جا کر سلام پیش کرتے تھے۔

نبی کریم ﷺ سے دعا یا مدد طلب کرنا

اس مسئلے میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ آئیے قرآن اور حدیث کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں:

  1. قرآنی اصول:

    • قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "وَقَالَرَبُّكُمُادْعُونِيأَسْتَجِبْلَكُمْ""وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ"
      • ترجمہ: "اور تمہارے رب نے کہا کہ مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔" (سورہ غافر 40:60)
    • یہ آیت واضح کرتی ہے کہ دعا اور مدد کے لئے اللہ تعالیٰ کو ہی پکارنا چاہئے۔
  2. سورہ الفاتحہ میں تعلیم:

    • "إِيَّاكَنَعْبُدُوَإِيَّاكَنَسْتَعِينُ""إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ"
      • ترجمہ: "ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔" (سورہ الفاتحہ 1:5)
    • یہاں اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کی تاکید ہے۔
  3. حدیث میں تعلیم:

    • نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "إِذَاسَأَلْتَفَاسْأَلِاللَّهَ،وَإِذَااسْتَعَنْتَفَاسْتَعِنْبِاللَّهِ""إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلِ اللَّهَ، وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ"
      • ترجمہ: "جب تم سوال کرو تو اللہ سے سوال کرو، اور جب مدد چاہو تو اللہ سے مدد چاہو۔" (سنن الترمذی)
    • اس حدیث میں بھی تاکید ہے کہ دعا اور مدد اللہ تعالیٰ سے ہی طلب کی جانی چاہئے۔

علماء کی رائے

  1. اکثریت کی رائے:

    • اکثر علماء کا مؤقف یہ ہے کہ دعا اور مدد اللہ تعالیٰ سے ہی مانگی جائے۔ روضہ رسول ﷺ پر سلام پیش کرنے اور دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن براہ راست نبی کریم ﷺ سے دعا یا مدد طلب کرنا قرآن اور سنت کی تعلیمات کے مطابق درست نہیں ہے۔
  2. اقلیتی رائے:

    • کچھ علماء اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ سے وسیلہ یا سفارش کی دعا کی جاسکتی ہے، لیکن یہ رائے اکثریت کی تعلیمات کے مطابق نہیں ہے۔

خلاصہ

اسلام کی تعلیمات کے مطابق، روضہ رسول ﷺ پر جا کر سلام پیش کرنا اور دعا کرنا سنت ہے۔ تاہم، دعا اور مدد طلب کرنے کے معاملے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اکثریت کی رائے یہی ہے کہ دعا اور مدد صرف اللہ تعالیٰ سے ہی طلب کی جائے، اور یہ کہ نبی کریم ﷺ سے براہ راست دعا یا مدد مانگنا قرآن اور حدیث کی تعلیمات کے مطابق نہیں ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ دعا کے لئے اللہ تعالیٰ کو پکاریں اور اس کی عبادت میں توحید کا خیال رکھیں۔

  1. https://www.tiktok.com/@maliofficial37?_t=8p8pCOG5boD&_r=1

    ReplyDelete